آپ اچھے ہیں لیکن ادھار اچھا نہیں
کبھی راہ میں اگر دونوں کا آمنا سامنا ہونے کا امکان پیدا ہو جائے تو قرض دار بےوفا پہلی محبت کی طرح یوں نظریں چُرا کر گزرتا ہے کہ گویا آنکھیں چار ہوئیں تو ناچار دوسری بار بے وفا ہونے کا ڈر ہو اور بے چارہ قرض خواہ جی ہی جی میں یہی گلہ کرتے ہوئے جل بھن جاتا ہے کہ "میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا"۔۔۔یہ قصہ ہے قرض خواہ اور قرض دار کا!
انسان معاشرتی حیوان ہے۔ وہ اپنی زندگی کامیابی سے بسر کرنے کے لیے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کی ضروریات باہم جڑی ہوئی ہیں ۔ انہیں تمام لوازمات پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ ایک دوسرے سے لین دین کے رشتوں سے معاشرے وجود میں آتے ہیں ۔ یہ زندگی "کچھ لو اور کچھ دو"کے اصول پر قائم ہے ۔اگر انسانوں میں یہ لین دین ختم ہو جائے تو زندگی رک جائے ۔
لین دین کی بنیاد اعتماد اور بھروسے پر ہوتی ہے ۔ہمیں اچانک اگر کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو ہم کسی صاحب حیثیت دوست سے رجوع کرتے ہیں اور اس سے یا تو وہ چیز خریدتے ہیں یا مستعار لے لیتے ہیں اور اسے یقین دلاتے ہیں کہ فلاں دن یہ چیز اسے لوٹا دی جائے گی ۔ یوں قرض لینے اور دینے والے کے درمیان ایک ناگ اور سپیرے، چور سپاہی یا ٹوم اینڈ جیری کا کھیل شروع ہو جاتا ہے ۔ جسے قرض لینے کے وقت قرض دار درازی عمر کی دعائیں دیتا ہے کچھ دن بعد اس کےا علان مرگ کی خواہش کرنے لگتا ہے ۔ قرض خواہ قرض دار کی گلی کے عاشق صادق کی طرح پھیرے لگاتا ہے اور قرض دار پردہ دار حسینہ کی طرح اس کے روبرو آنے سے کتراتا ہے ۔
کبھی راہ میں اگر دونوں کا آمنا سامنا ہونے کا امکان پیدا ہو جائے تو قرض دار بےوفا پہلی محبت کی طرح یوں نظریں چُرا کر گزرتا ہے کہ گویا آنکھیں چار ہوئیں تو ناچار دوسری بار بے وفا ہونے کا ڈر ہو اور بے چارہ قرض خواہ جی ہی جی میں یہی گلہ کرتے ہوئے جل بھن جاتا ہے کہ "میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا"...
دکاندار اُدھار دیں یا نہ دیں صلاح ضرور دیتے ہیں
ہمارے دوکاندار حضرات نہایت دانش مند واقع ہوئے ہیں۔ وہ قرض دار اور قرض خواہ کے اس قسم کے ناخوشگوار تعلق کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرتے ہیں بلکہ اپنے کاروبار کے لیے زہر قاتل قرار دیتے ہیں۔ اکثر دکانوں کے باہر ہمیں ایسے ایسے جملے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ ان " اقوالِ زریں" کہ پیچھے ان کے برسوں کے تجربہ کارفرما ہوتا ہے۔
آئیے! حکمت کے ان موتیوں میں سے چند اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں:
آپ اچھے ہیں ، ادھار اچھا نہیں ہے:
کتنا محبت بھرا پیغام ہے۔۔ جس میں اقرر بھی ہے اور انکار بھی۔ لکھنے والے کو اس بات کا تہہ دل سے یقین ہے کہ آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ سے اچھا کوئی نہیں مگر اس کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ادھار ایک لعنت ہے۔ وہ آپ جیسے اچھے انسان کے شایان نہیں سمجھتا کہ آپ اس لعنت میں مبتلا ہوں۔
نقد بڑے شوق سے، ادھار اگلے چوک سے:
آپ آئے ہیں۔ ہم آپ کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے بیٹھے ہیں۔ شوق سے ہماری دکان کو رونق بخشیں لیکن اگر ادھار جیسی لت میں مبتلا ہیں تو دروازہ کھلا ہے۔ عزت سے تشریف لے جائیے۔ ہمارے سربراہان مملکت کو اب اکثر دبے لفظوں میں عرب ممالک اسی قسم کا پیغام دیتے ہیں۔
ادھار جنگ ہے، اس لیے بند ہے:
واہ! کیا خوبصورت پیغام ہے۔ لکھنے والا اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت بھی دے رہا ہے اور یہ بھی کہ رہا ہے کہ "ہماری امن پسندی کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے" ۔ چونکہ آپ عادی نادہندہ ہیں اور قرض لے کر ڈکار جانا آپ کی فطرت میں شامل ہے۔اس لیے پھر ہمیں گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑے گا۔۔۔ یا تو اگلے قرض سے پہلے ہمیں آپ کا پیٹرول، بجلی وغیرہ مہنگی کروانے کی شرائط منظور کروانا پڑیں گی یا پھر کوئی آپ کے" اثاثے" گروی رکھنا پڑیں گے۔ آپ ایسی تلخ صورت حال سے بچیں اور ادھار مت مانگیں۔
ادھار محبت کی قینچی ہے:
بابا جی اشفاق احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اپنا کردار سوئی جیسا بناؤ قینچی جیسا نہ بناؤ۔۔۔ سوئی جوڑتی ہے اور قینچی جدا کرتی ہے۔ ادھار محبت کی پوشاک کو قینچی کی طرح کاٹتا ہے۔ اب امریکہ کے ساتھ دم توڑتی محبت ہی کو دیکھ لیں۔
کشمیر کی آزادی تک ادھا بند ہے:
یہ جملہ ایک المیہ ہے۔ ایک دکھ بھرا تبصرہ ہے۔۔۔ ایک طنز ہے ہمارے رہنماؤں پر۔۔ جن کی ترجیحات ہی بدل چکی ہیں۔ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے۔ دشمن نے ہمیں شہہ رگ سے دبوچ رکھا ہے اور ہم ہیں کہ اس مسئلے پر آج تک سنجیدہ ہی نہیں ہوئے۔ کیا اس طرزِ عمل سے کشمیر بنے گا پاکستان؟
اگر ہمارے فیصلے کرنے والوں نے اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں اولیت نہ بخشی تو ادھا سے بچنے کے لیے لوگ یہی لکھیں گے۔۔۔کہ ۔۔۔
کشمیر کی آزادی تک ادھا بند ہے!