اداس تم ہی نہیں ہو حیات ہے شاید
اداس تم ہی نہیں ہو حیات ہے شاید
تھکی تھکی سے کہیں کائنات ہے شاید
رکی رکی سی یہ سانسیں جھکی جھکی سی نگاہ
اس ایک بات میں اک اور بات ہے شاید
میں تم کو جیت رہا ہوں تمہیں پتا ہی نہیں
یہ اور بات کہ میری ہی مات ہے شاید
کہاں کا عشق مگر اس کو کون سمجھائے
پری خصال فرشتہ صفات ہے شاید
زمین جاگی ہوئی ہے زمانہ جاگا ہوا
کہ آج رات کوئی واردات ہے شاید
ہر ایک گام پہ روشن کرو دئے سے دیا
طلوع صبح سے پہلے نجات ہے شاید
ابھی تو شمع سے شبنم بنے گی آنکھ ثناؔ
ابھی تو ایک پہر اور رات ہے شاید