جادو گر لیگ اسپنر
اسی کی دہائی کے وسط میں جب ہم نے کرکٹ دیکھنی شروع کی تو پاکستان ٹیم میں عموماً مرد بحران عمران خان ، جاوید میانداد اورعبدالقادر میں سے کوئی ہوتا تھا۔عمران خان کپتان و آل راؤنڈر، جاوید میانداد بلے بازی کا ستون اور عبدالقادر لیگ سپنر۔ اس تکون کا ایک سرا یعنی لیگ اسپنر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
عبدالقادرکو ہم نے ان کی کرکٹ کے اختتامی چند سالوں میں دیکھا۔ ان کے بارے میں ہماری پہلی یاد 1986 میں شارجہ میں ہونے والا آسٹرل ایشیا کپ ہے۔ اس کے ایک میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف انھوں نے دس اوورز میں نو رنز دے کر چار وکٹیں حاصل کی تھیں اور نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم 74 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی۔ پاکستان نے یہ ہدف بغیر کوئی وکٹ کھوئے حاصل کر لیا تھا۔ آسٹرل ایشیا کپ کا فائنل جاوید میانداد کے چھکے کی وجہ سے یادگار ہے اور اس کے سامنے باقی تمام کھلاڑیوں کی کارکردگی ہیچ ہے۔تاہم اس میچ میں ابتدائی وکٹین گرنے کے بعد عمران خان نے عبدالقادر کو اوپر بھیجا تھا تا کہ رن ریٹ میں اضافے کے لئے جاوید میانداد کو غیر ضروری خطرات مول نہ لینے پڑیں۔عبدالقادر نے عمران خان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی اور تیس سے زائد تیز رنز بنائے جن میں روی شاستری کو لگائے گئے دو شاندار چھکے بھی شامل تھے جن سے پاکستانی رن ریٹ کو رفتار ملی۔
اسی برس ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی۔یہ سیریز ایک ایک سے برابر رہی۔ اس سیریز کی یادگار کورٹنی والش کے سلیم ملک اور قاسم عمر کو باؤنسرز سے زخمی کرنا ہے۔ اس سیریز کے پہلے میچ میں عبد القادر کی سولہ رنز سے چھ وکٹوں کی تباہ کن گیند بازی کے باعث ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم ترپن رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ یہ اگلے قریب دو عشرے تک ان کا کم ترین سکور رہا۔ 1987 پاکستان کی فتوحات کا سال تھا۔ اس سال پاکستان نے بھارت کو بھارت اور انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دی۔ بھارت میں عبدلقادر کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ انھیں شاید آخری یعنی بنگلور ٹیسٹ کے لئے باہر بٹھا دیا گیا تھا اور بنگلور کی فتح اقبال قاسم و توصیف احمد کے حصے میں آئی۔
حیدر آباد میں ہونے والے ون ڈے میں ان کے آخری بال پر رن آؤٹ ہونے کے باعث پاکستان چھ میچوں کی سیریز میں کلین سویپ سے محروم ہو گیا۔
انگلینڈ کی پچز اسپنرز کے لئے اتنی سازگار نہیں ہوتیں۔ وہاں دو میچ بارش سے متاثر ہوئے توہیڈنگلے میں تیسرا میچ پاکستان نے عمران خان کی شاندار گیند بازی اور سلیم ملک کے خوبصورت ننانوے رنز کی بدولت اننگز سے جیت لیا۔ ایجسٹن کا چوتھا میچ سنسنی خیز مقابلے کے بعد ڈرا ہوا ۔اوول کے آخری ٹیست میں پاکستانی بلے بازوں نے سات سو آٹھ رنز کا پہاڑ کھڑا کیا تو عبدالقادر بھی قہر بن کے ٹوٹے اور سات وکٹیں لے کے ان کی بساط ڈھائی سو کے اندر لپیٹ دی۔ فالوآن کے بعد بھی ان کی چار وکٹیں گر گئی تھیں جن میں سے تین عبدالقدر کے حصے میں آئیں تاہم اس موقع پر پاکستانی فیلڈرز اپنی پرانی ڈگر پر لوٹ آئے اور بوتھم و گیٹنگ کے نصف درجن کیچ چھوڑ کر انھیں میچ بچانے کا موقع دیا۔
1987 کے عالمی کپ میں عبدالقادر کی کارکردگی شاندار رہی۔انگلینڈ کے خلاف چار وکٹیں لے کر وہ مرد بحران ٹھہرے تو ویسٹ انڈیز کے خلاف انھوں نے آخری تین گیندوں پر تن تنہا دس رنز بنا کر ہارا ہوا میچ پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا۔
عالمی کپ کے فوراً بعد پاکستان انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز ہوئی جس کے تین میچوں میں عبدالقادر نے تیس وکٹیں لیں۔ جس میں لاہور میں ایک اننگز میں چھپن رنز دے کر نو وکٹ کی گیند بازی بھی شامل ہے۔ یہ تا یوم پاکستانی ریکارڈ ہے اور شاید تاریخ میں ساتویں بہترین باؤلنگ ہے۔ 1988 کے ابتدا میں پاکستانی ٹیم ویسٹ انڈیز گئی۔ یہ سیریز ایک ایک سے برابر ہوئی اوربلاشبہ اس وقت یہ چیمپئزز کی جنگ تھی۔ پہلا ٹیسٹ پاکستان نو وکٹوں سے جیتا تو دوسرا اعصاب شکن مقابلے کے بعد ڈرا ہوا۔ اس میں عبدالقادر آخری بلے باز تھے اور انھیں پانچ گیندیں کھیلنا تھیں جس میں وہ کامیاب رہے۔ آخری ٹیسٹ ویسٹ انڈین امپائرنگ اوران کے نچلے بلے بازوں کی مزاحمت کے باعث ویسٹ انڈیز کے نام رہا۔ تاہم عبدالقادر کی باؤلنگ یہاں بھی شاندار رہی مگر انھیں وہ کامیابی نہ ملی جس کے وہ حقدار تھے۔
1988 میں عالمی چیمپئن آسٹریلیا پاکستان کے دورے پر آئی۔ اس دورے میں بھی تین ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے اکیس وکٹوں کا سودا کیا۔ 1989 کے ابتدا میں نیوزی لینڈ میں آکلینڈ میں سات شکار کیے اور اس سال کے اختتام پر بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا ۔ اس سیریز کے دوران ایک نمائشی میچ میں سچن ٹنڈولکر نے عبدالقادر کو تین لگاتار گیندوں پر چھکے لگا کر ہیٹ ٹرک کی۔
1990 میں وسیم وقارکی جوڑی کے عروج پانے اور پھر مشتاق احمد کی آمد کے بعد عبدالقادر کے لئے مواقع کم ہو گئے۔ انھوں نے اپنا آخری ٹیسٹ اسی برس ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلا جہاں برائن لارا اپنے پہلے میچ میں ان کا آخری شکار بنے۔ 1993 میں وہ شارجہ کپ کے دو میچوں میں نظر آئے اور اس کے بعد ا ن کا بین الاقوامی کرکٹ سے ناتا ٹوٹ گیا۔
انھوں نے لیگ اسپن کے فن کو اس وقت زندہ رکھا جب وہ متروک ہو چکا تھا۔ جس وقت عبدالقادر آئے اس وقت کسی ٹیم میں کوئی لیگ سپن باؤلر نہیں تھا مگر اب یہ عالم ہے کہ نیوزی لینڈ ویسٹ انڈیز انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیمیں بھی مناسب سا لیگ سپنر ملنے پر فوراً اسے ٹیم میں لے آتی ہیں ۔عبدالقادر کو دیکھ کر ہی اگلی نسلوں میں لیگ سپنر بننے کا شوق پیدا ہوا۔ شین وارن ہوں، مشتاق احمد یا عمران طاہر ہر کوئی عبدالقادر کو اپنا استاد اور رہنما گردانتا ہے جو ان کی اپنی فن میں مہارت کا ثبوت ہے 80 کی دہائی میں عبدالقادر کے علاوہ لیگ سپنر یوں بھی کوئی نہیں تھا اور عام تصور یہی تھا کہ لیگ سپنرز ایک روزہ کرکٹ کے لئے موزوں نہیں کہ انھیں رنز بہت پڑتے ہیں۔عمران خان نےعبدالقادر کے اصرار اور ان کی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے انھیں ایک روزہ میچوں میں موقع دیا تو انھوں نے محدود اوورزکی کرکٹ میں لیگ سپن باؤلر کی افادیت ثابت کر دی۔
عمران خان کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ ان کاریکارڈ ان کی گیند بازی کےمعیار سے انصاف نہیں کرتا۔ انھوں نے دو سو چھتیس وکٹیں تب لیں جب ڈی آر ایس تھا اور نہ امپائر کا فیصلہ چیلنج کرنا کا کوئی طریقہ۔ اس کے علاوہ امپائرز کو بھی گوگلی اور فلپر کا اس قدر علم نہیں تھا اور نہ نیوٹرل امپائر کا تصور تھا۔ پھر بیٹسمین اگلے قدم پر پیڈ کر دیتے تھے اور اس انداز کو امپائر جائز اور بیٹسمین کا حق سمجھتے تھے۔ اور اس پر مستزاد پاکستان کی فیلڈنگ۔تاہم اگر اپنے دور سے تقابل کریں تو جب وہ ریٹائر ہوئے اس وقت صرف لانس گبز اور بشن سنگھ بیدی کی وکٹیں ہی ان سے زیادہ تھیں۔ان کے معیار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بہترین کرکٹرز اور مبصرین نے پاکستان کی آل ٹائم ٹیم بنائی تو اس میں واحد سپنر عبدالقادر ہی تھے۔
انگریز انھیں جادو گر کہتے تھے ۔ یہ ان کی گیند بازی کو خراج تحسین ہے۔مگر ہمیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اس کا تعلق ان کے ایکشن سےبھی ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا باؤلنگ ایکشن بھی بہت منفرد اور قابل دید تھا۔ مڈ آف کی طرف سے وہ اچھلتے رقص کرتے بالنگ کریز کی طرف آتے ہوئے بازو ایسے ہلاتے جیسے جادوگر اپنی پٹاری میں سے کوئی نیا جادو نکال رہا ہو ۔1970 کے عشرے میں پیدا ہونے والے ہم کرکٹ کے شیدائیوں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے اپنی سطح کی کرکٹ( گلی محلے کی کرکٹ) میں عبدالقادر کے ایکشن کی نقل نہ کی ہو۔
کرکٹ میں ریکارڈ بنتے رہتے ہیں، عبدلقادر سےزیادہ وکٹیں لوگ لے چکے ہیں اور کسی دن ان کے پاکستانی ریکارڈ بھی ٹوٹ جائیں گے مگر شاید ہی کوئی دوسرا عبدالقادر کرکٹ کو ملے۔