ٹوٹے شیشے کی آخری نظم
ٹوٹے شیشے کی آخری نظم
بھاگتے وقت کو میں آج پکڑ لایا ہوں
یہ مرا وقت مرے ذہن کی تخلیق سہی
رات اور دن کے تسلسل کو پریشاں کر کے
میں نے لمحات کو اک روپ دیا
صبح کو رات کی زنجیر سے آزاد کیا
خواب و بیدی کی دیوار گرا دی میں نے
زندگی موت سے کب تک یوں ہراساں رہتی
کیا ہوا وقت و حقیقت کا زوال
میں
اپنی ٹوٹی ہوئی زنجیر کہاں دفن کروں
ہر طرف قبریں مجاور ہیں
دیوتاؤں کے مقدس اجسام
ہر جگہ دفن ہیں
کوئی ویرانہ نہیں دور تلک
کیا مجھے اپنے ہی ذہن کے اس گوشے میں
ٹوٹے آدرشوں کے آئینے میں
وقت کے عکس کو دفنانا ہے