ٹوٹے ہوئے تارے
نوائے درد مری کہکشاں میں ڈوب گئی
وہ چاند تاروں کی سیل رواں میں ڈوب گئی
سمن بران فلک نے شرر کو دیکھ لیا
زمین والوں کے دل کو نظر کو دیکھ لیا
وہ میری آہ کا شعلہ تھا کوئی تارہ نہ تھا
وہ خاکداں کا مسافر تھا ماہ پارہ نہ تھا
دلوں میں بیٹھ گیا تیر آرزو بن کر
فلک پہ پھیل گیا عشق کا لہو بن کر
یہ ساکنان فلک درد و غم کو کیا جانیں
یہ خاکیوں کے رہ بیش و کم کو کیا جانیں
وہ غم کو پی تو گئے آنسوؤں کو پی نہ سکے
زمیں کے زہر کو پی کر وہ اور جی نہ سکے
فلک سے گرنے لگے ٹوٹ ٹوٹ کر تارے
زمیں پہ ڈھیر ہوئے تیر آہ کے مارے
یہ آگ اور بھی اوپر نکل گئی ہوتی
حریم عرش کو چھو کر نکل گئی ہوتی