ٹوٹا طلسم وقت تو کیا دیکھتا ہوں میں
ٹوٹا طلسم وقت تو کیا دیکھتا ہوں میں
اب تک اسی جگہ پہ اکیلا کھڑا ہوں میں
یہ کشمکش الگ ہے کہ کس کشمکش میں ہوں
آتا نہیں سمجھ میں بہت سوچتا ہوں میں
میں اہل تو نہیں ہوں کہ دیکھے کوئی مگر
دنیا مجھے بھی دیکھ ترا آئنا ہوں میں
اکثر غرور فکر جب اترا دماغ سے
میں دنگ رہ گیا کہ یہ کیا لکھ گیا ہوں میں
میرا کلام وحی نہیں ہے تو پھر مجھے
یہ زعم کیوں نہ ہو کہ خود اپنا خدا ہوں میں
مجھ سے نہیں اسے مرے فردا سے ہے امید
منزل سے کوئی اور فقط راستہ ہوں میں
کیا فائدہ مجھے جو پلٹ کر جواب دوں
اپنے لئے کہاں ہوں برا یا بھلا ہوں میں
غافل اب اور کیا ہوں کسی سے کہ عمر بھر
آوارگی کی گود میں سوتا رہا ہوں میں
کیا یہ جگہ ہے جس کی تمنا میں آج تک
دن رات شہر شہر بھٹکتا پھرا ہوں میں
مشعل بدست گھومتے گزری ہے ایک عمر
اب کس کے انتظار میں ٹھہرا ہوا ہوں میں