طوفان کا ہواؤں کا پانی کا کیا بنا
طوفان کا ہواؤں کا پانی کا کیا بنا
کشتی بھنور میں تھی تو روانی کا کیا بنا
کردار تو شروع میں مارا گیا مگر
یہ تو بتا کے جاؤ کہانی کا کیا بنا
اس نے خبر یہ دی مرا آنگن اجڑ گیا
میں سوچتی ہوں رات کی رانی کا کیا بنا
اب پیڑ تو نہیں ہیں پرندے کہاں گئے
اور یہ کہ ان کی نقل مکانی کا کیا بنا
وہ لے گیا تھا ساتھ کنارے سمیٹ کر
دریا سے پوچھتی رہی پانی کا کیا بنا
میں آئنے میں ڈھونڈھتی رہتی ہوں رات دن
کچھ تو پتا چلے کہ جوانی کا کیا بنا
میں تو رکی نہیں تھی چلی آئی چھوڑ کر
جانے پھر اس کی تلخ بیانی کا کیا بنا
وہ جو تمہارے پاس امانت پڑی رہی
اس گنگناتی شام سہانی کا کیا بنا