تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں محو حیرت بے خودی مجھے آئنہ سا بنا دیا
وہ جو نقش پا کی طرح رہی تھی نمود اپنے وجود کی
سو کشش نے دامن ناز کی اسے بھی زمیں سے مٹا دیا
رگ و پے میں آگ بھڑک اٹھی پھنکے ہے پڑا یہ سبھی بدن
مجھے ساقیا مئے آتشیں کا یہ جام کیسا پلا دیا
جبھی جا کے مکتب عشق میں سبق مقام فنا لیا
جو لکھا پڑھا تھا نیازؔ نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا