تو نہیں ہے تو زندگی ہے اداس
تو نہیں ہے تو زندگی ہے اداس
ہر طرف ہے محیط ظلمت و یاس
وہ مسافر قریب منزل ہے
کھو چکا ہے جو اپنے ہوش و حواس
اترے اترے ملول چہروں پر
بکھرا بکھرا سا رنگ عالم یاس
چھیڑ دو پھر کوئی ترانۂ غم
ٹوٹ جائے نہ زندگی کی آس
موت بھی تو اسے نہیں آتی
ہو چکا ہے جو زندگی سے اداس
خاموشی کا سبب کچھ اور ہی ہے
ورنہ دل میں نہ خوف ہے نہ ہراس
اب یہ پرویزؔ دل کا عالم ہے
کوئی امید ہے نہ کوئی آس