تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے
تو مطمئن ہے تو آخر یہ حال کیسا ہے
زبان چپ ہے نظر میں سوال کیسا ہے
تمام شہر میں خوشیاں لٹانے نکلے تھے
تمہارے چہرے پہ رنگ ملال کیسا ہے
چلی گئی ہے مسرت تو مسکراہٹ کیوں
اتر چکی ہے ندی تو ابال کیسا ہے
یہاں سبھی کو سبھی سے عقیدتیں ہیں بہت
قدم قدم پہ یہ سازش کا جال کیسا ہے
کسی نے خون کی ہولی اگر نہیں کھیلی
تو ہر طرف یہ لہو کا گلال کیسا ہے
رفو گری کیا کرتے ہیں نوک خنجر سے
ہمارے زخم کا ان کو خیال کیسا ہے
قریب رہتا ہے کرتا نہیں ہے رم لیکن
پکڑ میں آتا نہیں وہ غزال کیسا ہے
ظفرؔ اسی کو عروج و زوال کہتے ہیں
جو سر بلند تھا وہ پائمال کیسا ہے