تو بے وفا ہے ترا اعتبار کون کرے
تو بے وفا ہے ترا اعتبار کون کرے
تمام عمر ترا انتظار کون کرے
بہت دنوں سے میں خوش فہمیٔ وصال میں ہوں
جو تو نہیں تو مجھے بے قرار کون کرے
سنائیں حال بھی دل کا اگر سنے کوئی
سنے نہ جب کوئی چیخ و پکار کون کرے
وہ آئے یا کہ نہ آئے یہ اس کی ہے مرضی
شمار گردش لیل و نہار کون کرے
جو میں بھی سب کی طرح بس ترے قصیدے لکھوں
علاج برہمئ روزگار کون کرے
اگر نصیب میں ضیغمؔ خزاں ہی لکھی ہو
تو پھر جہاں میں تلاش بہار کون کرے