تمہیں خبر بھی نہ ملی اور ہم شکستہ حال
تمہیں خبر بھی نہ ملی اور ہم شکستہ حال
تمہارے قدموں کی آندھی میں ہو گئے پامال
ترے بدن کی مہک نے سلا دیا تھا مگر
ہوا کا اندھا مسافر چلا انوکھی چال
وہ ایک نور کا سیلاب تھا کہ اسی کا سفر
وہ ایک نقطۂ موہوم تھا کہ یہ بد حال
عجیب رنگ میں وارد ہوئی خزاں اب کے
دمکتے ہونٹ سلگتی نظر دہکتے گال
ترے کرم کی تو ہر سو مہکتی برکھا تھی
ہمیں تھے جن کو ہوا بھیگا پیرہن بھی وبال