تمہاری یاد کے منظر پرانے گھیر لیتے ہیں

تمہاری یاد کے منظر پرانے گھیر لیتے ہیں
نہ جانے ڈھونڈھ کر کیسے کہاں سے گھیر لیتے ہیں


جو ہم نے ان دنوں بس یوں ہی پوکھر میں اچھالے تھے
لگوں جب ڈوبنے تو وہ ہی تنکے گھیر لیتے ہیں


میں ایسی شہرتوں کی سوچ سے بھی خوف کھاتا ہوں
جدھر نکلو ادھر اخبار والے گھیر لیتے ہیں


خدا جانے خدا نے کیوں مجھے اتنا نوازا ہے
میں جب بھی لڑکھڑاتا ہوں سہارے گھیر لیتے ہیں


یہ طاقت اور یہ شہرت سمے کا پھیر ہے پیارے
گلی اپنی ہو تو ہاتھی کو کتے گھیر لیتے ہیں


یہ میرے دوست بھی کمبخت رونے تک نہیں دیتے
ذرا سا آنکھ کیا بھیگی کمینے گھیر لیتے ہیں