تمہاری یاد کے دیپک بھی اب جلانا کیا
تمہاری یاد کے دیپک بھی اب جلانا کیا
جدا ہوئے ہیں تو عہد وفا نبھانا کیا
بسیط ہونے لگی شہر جاں پہ تاریکی
کھلا ہوا ہے کہیں پر شراب خانہ کیا
کھڑے ہوئے ہو میاں گنبدوں کے سائے میں
صدائیں دے کے یہاں پر فریب کھانا کیا
ہر ایک سمت یہاں وحشتوں کا مسکن ہے
جنوں کے واسطے صحرا و آشیانہ کیا
وہ چاند اور کسی آسماں پہ روشن ہے
سیاہ رات ہے اس کی گلی میں جانا کیا