تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے

تمہاری راہ میں مٹی کے گھر نہیں آتے
اسی لئے تو تمہیں ہم نظر نہیں آتے


محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے
یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے


جنہیں سلیقہ ہے تہذیب غم سمجھنے کا
انہیں کے رونے میں آنسو نظر نہیں آتے


خوشی کی آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا
برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے


بساط عشق پہ بڑھنا کسے نہیں آتا
یہ اور بات کہ بچنے کے گھر نہیں آتے


وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار
جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے