تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا
تمہارے شہر میں دیکھوں تو کیا نہیں ملتا
بس اپنے گھر کے لیے راستہ نہیں ملتا
عروج پر ہے نئے موسموں کا جاہ و جلال
شجر پہ کوئی بھی پتہ ہرا نہیں ملتا
ابھی ابھی کوئی آندھی ادھر سے گزری ہے
رہ حیات مجھے نقش پا نہیں ملتا
بچھڑ کے تجھ سے طبیعت اچاٹ رہتی ہے
خود اپنے گھر میں بھی گھر کا مزا نہیں ملتا
تمہیں بھی روز کہانی وہی سنانی ہے
مجھے بھی خواب کوئی دوسرا نہیں ملتا
متاع برگ و ثمر بھی لٹا چکے اشجار
کسی طرح بھی مزاج ہوا نہیں ملتا
میں کس طرح سے ظفرؔ مسئلوں کو سلجھاؤں
کسی بھی بات کا کوئی سرا نہیں ملتا