تمہارے سامنے ٹھہرے گا ماہتاب کہاں
تمہارے سامنے ٹھہرے گا ماہتاب کہاں
حسیں تمہاری طرح سے یہ بے حساب کہاں
ہمارے دل کی امنگوں کا حال مت پوچھو
اب ایسا بحر کی موجوں میں اضطراب کہاں
نگاہ بھر کے تمہیں دیکھنے کی حسرت ہے
مگر ہماری نگاہوں میں اتنی تاب کہاں
جو اعلی ظرف ہیں وہ خاکسار ہیں سارے
گہر ملے تھے یہ دریا مگر حباب کہاں
ذرا سی پی کے بہکنے کی ہے سزا شاید
جو صرف آنکھ چھلکتی ہے اب شراب کہاں
ضیا سے جس کی کوئی ذرہ فیضیاب نہیں
وہ آفتاب کا دھوکا ہے آفتاب کہاں
کسی پہ انگلی اٹھائی تو یہ خیال آیا
ہمارے جیسا جہاں میں کوئی خراب کہاں
جو آسمان سے اتری ہے وہ کتاب ہو تم
تمہارے جیسی جہاں میں کوئی کتاب کہاں
ہمارے گھر کی ہی قسمت بلند تھی شاید
وگرنہ آپ کہاں اور ہمارا باب کہاں
سمنؔ نصیب سے وہ مجھ کو مل گئے ورنہ
حسین اتنا ابھی میرا انتخاب کہاں