تمہارے قد سے ہیں قائم قیامتیں کیا کیا

تمہارے قد سے ہیں قائم قیامتیں کیا کیا
اٹھی ہیں بیٹھے بٹھائے یہ آفتیں کیا کیا


لبوں پہ جان کا آنا یہ خواب کا جانا
خیال لب میں ہیں تیری حلاوتیں کیا کیا


دل اپنا تم کو دیا پھر رکھے وفا کی امید
بیاں اپنی کروں میں حماقتیں کیا کیا


زمیں میں شرم سے اس قد کی گڑ گیا ہے سرو
ہوئی ہیں اس کو نہ حاصل ندامتیں کیا کیا


پھرا عدم سے کوئی اب تلک نہ اکتا کر
خدا ہی جانے وہاں ہیں فراغتیں کیا کیا


تو بے نصیب ہے ناصح تجھے کہوں کیا میں
کہ رنج عشق میں ہوتی ہیں راحتیں کیا کیا


گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے
وگرنہ یاد تھیں مجھ کو شکایتیں کیا کیا


مجھے ہے گریہ میں مچلائے پر ہنسی آتی
کہے ہے سن کے تو جب میری حالتیں کیا کیا


کہے ہے مجھ کو مرا شعلہ رو بصد تشنیع
بیان تیری کروں میں شرارتیں کیا کیا


کہوں جو آ تو پھرے میرے گرد پہروں تلک
جو بولوں جا تو جتائے نقاہتیں کیا کیا


ڈرائے آہ سے گر آہ سن کے میں نہ ڈروں
دکھائے اشک کی اپنی سرایتیں کیا کیا


جو زلف دیکھی تو چمٹی مجھے بلا کی طرح
نصیب اپنے کی بتلائیں شامتیں کیا کیا


جو کھولوں بند قبا پھر کھلے ہے تیری زباں
نکالتا ہے تو اس میں قباحتیں کیا کیا


جو سرمہ دوں ہوں تو اک توتیا سا باندھے ہے
کہوں جو بات بنائے حکایتیں کیا کیا


مریض عشق تو ہو اور مجھ کو روگ لگے
رہیں ہیں اب کی زمانے میں چاہتیں کیا کیا


جو ذکر کل کا کیا میں نے منہ چھپا کے کہا
تجھے بھی یاد ہیں احساںؔ کنایتیں کیا کیا