تمہارے اعجاز حسن کی میرے دل پہ لاکھوں عنایتیں ہیں
تمہارے اعجاز حسن کی میرے دل پہ لاکھوں عنایتیں ہیں
تمہاری ہی دین میرے ذوق نظر کی ساری لطافتیں ہیں
جواں ہے سورج جبیں پہ جس کے تمہارے ماتھے کی روشنی ہے
سحر حسیں ہے کہ اس کے رخ پر تمہارے رخ کی صباحتیں ہیں
میں جن بہاروں کی پرورش کر رہا ہوں زندان غم میں ہمدم
کسی کے گیسو و چشم و رخسار و لب کی رنگیں حکایتیں ہیں
نہ جانے چھلکائے جام کتنے نہ جانے کتنے سبو اچھالے
مگر مری تشنگی کہ اب بھی تری نظر سے شکایتیں ہیں
میں اپنی آنکھوں میں سیل اشک رواں نہیں بجلیاں لیے ہوں
جو سر بلند اور غیور ہیں اہل غم یہ ان کی روایتیں ہیں
میں رات کی گود میں ستارے نہیں شرارے بکھیرتا ہوں
سحر کے دل میں جو اپنے اشکوں سے بو رہا ہوں بغاوتیں ہیں
یہ شاعری نو کی پیغمبری زمانے کی داوری ہے
لبوں پہ میرے صحیفۂ انقلاب کی سرخ آیتیں ہیں