تمہارا شہر
تمہارا شہر تمہارے بدن کی خوشبو سے
مہک رہا تھا، ہر اک بام تم سے روشن تھا
ہوا تمہاری طرح ہر روش پہ چلتی تھی
تمہارے ہونٹوں سے ہنستی تھیں نرم لب کلیاں
عطا ہوئی تھی سحر کو تمہاری سیم تنی
ملی تھی شام و شفق کو تمہاری گل بدنی
تمہارا نام تصور بھی تھا، تخیل بھی
یقیں بھی، شوق بھی، امید بھی، تمنا بھی
سجی تھی زلف جواں آرزو کے پھولوں سے
امیدوار تھے ہر سمت عاشقوں کے گروہ
مگر یہ کیا ہے کہ ہر کوچہ آج ویراں ہے
گلی گلی میں ہیں فولاد پا سیہ عفریت
چمن چمن میں سڑی لاش کا تعفن ہے
ہوائیں گرم ہیں بارود کا اندھیرا ہے
خبر نہیں کہ یہاں سے کدھر کو جانا ہے
تمہارا شہر، تمہارے بدن کی خوشبو کو
ترس رہا ہے، ہر اک بام تیرہ ساماں ہے
نہ روشنی ہے، نہ نکہت، نہ نغمہ ہے، نہ نوا
ہر اک روش پہ ہوا چل رہی ہے نوحہ کناں
سحر کی گل بدنی ہے لہو کا پیراہن
نہ شام ہے نہ سحر صرف اک سیاہ کفن
تمہارے شہر کی عریانیوں کو ڈھانپتا ہے
خبر نہیں کہ یہاں سے کدھر کو جانا ہے
وہ اک جلوس سا اک موڑ پر نظر آیا
کوئی عظیم جنازہ گزرنے والا ہے
ہوا میں نالہ و فریاد کی ہے کیفیت
ہر ایک آنکھ میں آنسو، ہر ایک ہونٹ پہ آہ
دلوں کا نوحۂ غم سسکیوں میں ڈھلتا ہے
وہ درد ہے کہ کوئی کھل کے رو نہیں سکتا
مگر جنازہ کہیں بھی نظر نہیں آتا
کفن فروش بھی ہیں، گورکن بھی ہیں لیکن
کوئی بتا نہیں سکتا کہ کس کی میت ہے
کوئی بتا نہیں سکتا کدھر گیا تابوت
کوئی بتا نہیں سکتا کہاں ہے قبرستان
چلو قریب سے دیکھیں یہ بد نصیب ہیں کون
کلرک ہیں جو ابھی دفتروں سے نکلے ہیں
تمام ایک سی شکلیں ہیں ہندسوں کی طرح
کسان ہیں جو ابھی کھیتیوں سے پلٹے ہیں
نکل کے آئے ہیں مزدور کارخانوں سے
اور ان کی پشت پہ افسردہ کھولیوں کی قطار
سروں پہ اڑتے دھوئیں کے سیاہ رنگ علم
برہنہ بچوں کے رونے کی دردناک صدا
جلوس غم ہے جنازہ بدوش چلتا ہے
مگر جنازہ کدھر ہے نظر نہیں آتا
خبر نہیں کہ یہاں سے کدھر کو جانا ہے