تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے

تمہارا ہاتھ جب میرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کے آخری دن تھے
وہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے


بہار آئی نہ تھی لیکن ہواؤں میں نئے موسم کی خوشبو رقص کرتی تھی
اچانک جب کہا تم نے مرے منہ پر مجھے جھوٹا خزاں کے آخری دن تھے


وہ کیا دن تھے یہیں ہم نے بہاروں کی دعا کی تھی کسی نے بھی نہیں سوچا
چمن والوں نے مل کر جب خود اپنا ہی چمن لوٹا خزاں کے آخری دن تھے


لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے


بہت ہی زور سے پیٹے ہوا کے بین پر سینے ہمارے خیر خواہوں نے
کہ چاندی کے ورق جیسا سمے نے جب ہمیں کوٹا خزاں کے آخری دن تھے


نہ رت تھی آندھیوں کی یہ نہ موسم تھا ہواؤں کا تو پھر یہ کیا ہوا امجدؔ
ہر اک کونپل ہوئی زخمی ہوا مجروح ہر بوٹا خزاں کے آخری دن تھے