تم کو بھلا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے

تم کو بھلا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
میں زہر کھا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے


کل میری ایک پیاری سہیلی کتاب میں
اک خط چھپا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے


اس وقت رات رانی مرے سونے صحن میں
خوشبو لٹا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے


ایمان جانئے کہ اسے کفر جانئے
میں سر جھکا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے


کل شام چھت پہ میر تقی میرؔ کی غزل
میں گنگنا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے


انجمؔ تمہارا شہر جدھر ہے اسی طرف
اک ریل جا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے