تم جو چاہو تو کہانی یہ سنا دیتے ہیں

تم جو چاہو تو کہانی یہ سنا دیتے ہیں
کس طرح لوگ محبت میں دغا دیتے ہیں


ورنہ یہ راز محبت تو عیاں ہوتا نہیں
لوگ کم ظرف کئی شور مچا دیتے ہیں


کس طرح ان کو فلک چھونے سے روکے گی ہوا
جن پرندوں کو ہرے پیڑ دعا دیتے ہیں


میں جنہیں چھوڑ کے پردیس چلا آیا ہوں
راستے آج بھی گاؤں کے صدا دیتے ہیں


گر یقیں آتا نہیں ہے تجھے اس وحشت کا
زخم صحرا تجھے سینے کے دکھا دیتے ہیں


یہ ضروری تو نہیں دوش ہوا کا نکلے
پیڑ خود بھی تو پرندوں کو اڑا دیتے ہیں


دوستوں سے جو عطا ہوتے ہیں گھاؤ یاسرؔ
تذکرہ کرتے نہیں ان کا بھلا دیتے ہیں