تم جنہیں دل میں لئے پھرتے ہو جذبوں کی طرح

تم جنہیں دل میں لئے پھرتے ہو جذبوں کی طرح
ضرب لفظی سے بکھر جائیں گے شیشوں کی طرح


اس نے وعدے جو کئے تھے کبھی قسموں کی طرح
دل پہ تحریر ہیں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح


میں کہ عظمت میں فرشتوں سے زیادہ ہوں مگر
چاہتا یہ ہوں نظر آؤں فرشتوں کی طرح


سانس کے ساتھ گھٹے جاتے ہیں روحوں کے لباس
ہم بھی تحلیل ہوئے جاتے ہیں لمحوں کی طرح


یہ گھٹائیں یہ سیہ رات یہ کاجل یہ نصیب
ان میں کوئی بھی نہیں ہے تری زلفوں کی طرح


کوئی دھڑکن یا حرارت یا کوئی آنسو ہو
یوں تو پتھر بھی نظر آتے ہیں جسموں کی طرح


انتظار اور کسی شعلہ بدن کا اخترؔ
میری آنکھیں مجھے لگنے لگیں چھالوں کی طرح