تجھے پسند جو دل کی لگن نہیں آئی

تجھے پسند جو دل کی لگن نہیں آئی
مجھے بھی راس تری انجمن نہیں آئی


اڑا سا رنگ ہے کیوں وقت کے مسیحاؤ
ابھی تو منزل دار و رسن نہیں آئی


تڑپتا ہی رہا یعقوب دار عہد کہن
ہوائے یوسف گل پیرہن نہیں آئی


ستم شعار تو تھا غیر بھی مگر اس کو
جفا طرازیٔ اہل وطن نہیں آئی


جو دھوپ بن کے چمک جاتی دل کے آنگن میں
تری نظر کی وہ رنگیں کرن نہیں آئی


جو پیش خیمہ بنے انقلاب کا اب تک
جبین وقت پہ ایسی شکن نہیں آئی