تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا
تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا
انتشار ذات کا اک سلسلہ رہ جائے گا
قربتیں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا
چند یادوں کے سوا بس اور کیا رہ جائے گا
یہ تغافل ایک دن اک سانحہ بن جائے گا
عکس تو کھو جائے گا اور آئنہ رہ جائے گا
وقت میں لمحہ سا میں تحلیل ہوتا جاؤں گا
خالی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتا رہ جائے گا
ایک شاعر اک حسیں سے شعر کی خاطر مٹا
وقت کی تحویل میں یہ واقعہ رہ جائے گا
سرد مہری کے کہر میں اس کا چہرہ کیا ملے
ان دھندلکوں میں اسے تو ڈھونڈھتا رہ جائے گا
ایک سایہ نرم و نازک چھوڑ کر جو چل دیا
سر پہ سورج اک مسافر راستہ رہ جائے گا