تجھ کو ہے ذوق سکوں اے دل بیتاب ابھی
تجھ کو ہے ذوق سکوں اے دل بیتاب ابھی
صبح ہے اور ہے تو منتظر خواب ابھی
ابھی اندیشۂ تاراج خزاں باقی ہے
وقت ہنسنے کا نہیں اے گل شاداب ابھی
فکر تعمیر بھی غافل نہیں بے بس ہے مگر
کہ جنوں خیز ہیں تخریب کے اسباب ابھی
جس سے دنیا کی جراحت کا مداوا ہو جائے
نوش دارو وہ زمانے میں ہے نایاب ابھی
جس کے ہر جرعہ میں ہو کیف مساوات نہاں
مے کدوں میں نہیں ملتی وہ مئے ناب ابھی
قیس و فرہاد کی تقلید پہ مرنے والے
دشت و کہسار میں ہیں نقش وہ آداب ابھی
فیض قدرت میں کمی کوئی نہیں ہے لیکن
پھر بھی محتاج ہے یہ عالم اسباب ابھی
مجھ سے محرومؔ تقاضائے غزل ہے بے سود
کہ مری فکر میں ہے نوحۂ پنجاب ابھی