؟ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حامی اور مخالفین کے موقف میں فرق کیا ہے
اس وقت سوشل میڈیا پر ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے حوالے سے بہت گرما گرم مباحث جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے بیشتر بغیر پڑھے تاثرات، افواہوں اور سنی سنائی باتوں کو لے کر نتائج کی بنیاد پر ہیں نہ کہ حقیقی معلومات پر۔ اسی بات کا ادراک کرتے ہوئے اس تحریر میں آپ کے لیے حتی الامکان سادہ اور عام فہم انداز میں ٹرانس جینڈر کے مسئلے، اس پر قانون، قانون پر تحفظات اور اس کا دفاع کرنے والے طبقے کے موقف کو پیش کیا جا رہا ہے۔ آپ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد سمجھ پائیں گے کہ حقیقی ٹرانسجینڈر کی جد وجہد کیا ہے؟ وہ کیا حالات تھے جن میں ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور کروایا گیا؟ اس قانون میں ایسی کیا بات ہے کہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہم جنس پرستی جیسے جرائم کی قانونی راہ نکالتا ہے؟ یا پھر صرف بد گمانی کی بنییاد پر ایسا سمجھا جا رہا ہے؟ اب اس قانون کو بدلنے اور بچانے کی کیا کاوشیں جاری ہیں؟ تحریر کے آخر میں آپ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے مزید مطالعے کی خاطر مواد کے حوالہ جات بھی پائیں گے۔
ٹرانس جینڈر قانون کو سادہ الفاظ میں سمجھنے کے لیے یہاں کلک کیجیےآئیے اب ہم تمام مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے مختصر ترین الفاظ میں ٹرانس جیںدرز کے لیے قانونی جنگ کی تاریخ کو دیکھتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر مسئلے کی قانونی تاریخ:
یوں تو پاکستان میں حقیقی ٹرانس جینڈرز کئی دہائیوں سے اپنے قانونی حقوق کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ جنوری 2009 میں اس وقت آیا جب پولیس نے راولپنڈی کے ایک گھر میں شادی کے دوران چھاپا مارا۔ آسٹریلین یونیورسٹی آف میلبورن کے جیفری اے ریڈنگ نے 2009 سے 2019 تک کی ٹرانس جینڈر کی قانونی تاریخ لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق کئی ٹرانسجینڈر اور خواتین وہاں بیہودہ طریقے سے ناچنے میں مصروف تھے۔ بعد میں پولیس نے ان کا جوڈیشل ریمانڈ لیا لیکن پھر سرگرم ٹرانسجینڈر رہنما الماس شاہ بوبی کی قیادت میں پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں پولیس کو تمام کیس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ چھے فروری 2009 کو مشہور اسلامی اسکالر اور وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے سپریم کورٹ میں ٹرانس جینڈر کے لیے درخواست دائر کی۔ درخواست میں موقف تھا کہ ٹرانسجینڈر سے ان کے والدین، سمیت معاشرہ اور ریاست انتہائی زیادتی بھرا سلوک کرتے ہیں۔ ان کو بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کردار ادا کرے۔ کیس دسمبر 2012 تک چلتا رہا۔ اس دوران عدالت عالیہ نے نومبر 2009 سے لے کر دسمبر 2012 کو فیصلے تک بہت سے آرڈر جاری کیے۔ ان آرڈرز کا لب لباب یہ ہے کہ نادرا میڈیکل کے بعد ٹرانسجینڈرز کو مرد اور عورت سے ہٹ کر تیسری جنس الاٹ کرے، ان کو ووٹ کا حق دیا جائے، تعلیمی اداروں میں ان کی تعلیم کا بند وبست کیا جائے، ان کے لیے معاشی مواقعے پیدا کیے جائیں اور ان سے استحصال بھرا سلوک بند کیا جائے۔
ٹرانس جینڈر قانون 2018 کو قانونی اعتبار سے سمجھنے کے لیے یہاں کلک کیجیےپھر ان آرڈرز کے اطلاقات میں کئی ایک مسائل سامنے آئے۔ 2017 میں ٹرانسجینڈرز کے حقوق کے لیے قانون متعارف کروایا گیا۔ رپورٹس کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل سمیت اسلامی رجحان رکھنے والے دائیں بازو کے قانون سازوں نے اس پر اعتراض کیا۔ لیکن مئی 2018 میں صرف تین قانون سازوں کی مخالفت ہونے اور ایوان میں اس کے حق میں بھاری اکثریت کی وجہ سے اسے منظور کر لیا گیا۔ اپنے اطلاق کے بعد سے یہ مختلف عدالتی فورمز پر چیلنج ہونے لگا جس میں سب سے مضبوط وفاقی شرعی عدالت تھی۔ 2020 میں اس قانون کے اطلاق کے لیے اصول و ضوابط بھی سامنے آئے۔ 2021 میں جماعت اسلامی کے سینٹر مشتاق خان صاحب نے سینٹ میں اس قانون میں ترمیمی بل متعارف کروایا۔ معاملہ سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو سونپ دیا گیا۔ اب تک معاملہ سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں سلجھایا نہیں جا سکا۔ بہر کیف وفاقی شرعی عدالت میں اس پر سماعتیں شروع ہو چکی ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق آخری سماعت پر سابقہ بیروکریٹ اور کالم نگار اوریا مقبول جان، ٹرانس جینڈر کے سربراہ الماس شاہ بوبی اور مشتاق خان صاحب کے وکیل پیش ہوئے۔ سب نے اپنا اپنا موقف اس قانون پر پیش کیا۔ اس میں موجود ٹرانس جینڈر کے لفظ پر خوب بحث ہوئی۔
(جاری ہے)