تو پھر یہ دیکھا

تو پھر یہ دیکھا کہ روشنی کے حصار میں ایک دیو قامت شجر کھڑا ہے
کہ جس نے شانوں پہ بے شمار شاخیں اٹھا رکھی ہیں
کہ بے شمار شاخوں پہ ان گنت کونپلیں کھڑی ہیں
جو اپنی آنکھوں کی نرمیوں سے نمو کا اعجاز دیکھتی ہیں
اور اپنی زندہ سماعتوں میں
لہو کی آواز سن رہی ہیں
تو پھر یہ دیکھا
نہ کوئی کونپل نہ وہ شجر ہے
بس ایک میں ہوں کہ بے نمو ہوں
اور اک ازل ہوں
بس ایک میں ہوں کہ بے نیابت ہوں
اور ابد ہوں


بس ایک میں ہوں
کہ زرد مٹی میں پنڈلیوں تک دھنسا ہوا ہوں