تو مل بھی جائے تو پھر بھی تجھے تلاش کروں

تو مل بھی جائے تو پھر بھی تجھے تلاش کروں
ہر ایک دور میں تخلیق ارتعاش کروں


میں فاش ہو ہی چکا ہوں تو کیا ضروری ہے؟
کہ اپنے ساتھ تجھے بھی جہاں میں فاش کروں


سراغ زیست ملے ریزہ ریزہ انساں کو
بتان عصر کو کچھ ایسے پاش پاش کروں


زمیں نے قرض دیا مجھ کو رزق کی صورت
مروں تو کیوں نہ سپرد اس کے اپنی لاش کروں


مجھے نجات ملے تیرہ کاریوں سے کاش
میں نور اگاؤں یہاں روشنی معاش کروں


مری بقا کا تقاضا ہے جب بھی رت بدلے
میں جمع از سر نو اپنی قاش قاش کروں


جدید دور میں رہتے ہوئے بھی اے روحیؔ
ہے آرزو کہ نہ ترک اپنی بود و باش کروں