تو کیا
نکلتے دن کے دامن میں گماں ہیں
کہ اب اس دور میں بے کیفیاں ہیں
ہمیں رکھا ہے وقت بے ہنر میں
سکوں لوٹا گیا اس مستقر میں
اترتی جا رہی ہے رات گھر میں
تری یادوں میں ٹھہرے دن کہاں ہیں
سمندر کی
سیاہی سے پرے
اک جھلملاہٹ تھی
گئی یادوں کی آہٹ تھی
کسی احساس کا عنواں نہیں تھا
تلملاہٹ تھی
تمنا خود کلامی کے قرینے کی ردا اوڑھے
لبوں کی کپکپاہٹ تھی
بچھڑا ہوا انداز ہوں میرا کیا ہے
ٹوٹا ہوا اک ساز ہوں میرا کیا ہے
وہ گل ہوں کہ جس میں نہیں خوشبو کوئی
مٹی ہوئی آواز ہوں میرا کیا ہے
صواب یہ ہے
یہی اب ہے
یہاں منظر بدلنے کا ہنر مل بھی گیا تو کیا
دل صد چاک
اب سل بھی گیا
تو کیا