تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا
تشنگی میں کوئی قطرہ نہ میسر آیا
مر گئی پیاس تو حصے میں سمندر آیا
جتنے غواص تھے وہ تہہ سے نہ خالی لوٹے
جو شناور تھے انہیں ہاتھ نہ گوہر آیا
میری قسمت میں وہی شب وہی ظلمت کا گزر
صبح آئی نہ مرا مہر منور آیا
سر جھکایا تو مجھے روند گئی ہے دنیا
سر اٹھایا تو ہر اک سمت سے پتھر آیا
وہ تو خوش ہے کہ مجھے مار گرایا اس نے
مجھ کو غم ہے کہ مری پیٹھ پہ خنجر آیا
چند ہی روز میں اوقات کوئی بھول گیا
گاؤں میں شہر کی پوشاک پہن کر آیا
سو گیا تھک کے ہر اک بین بجانے والا
سانپ کوئی بھی مگر بل سے نہ باہر آیا
پیار کی راہ میں وہ دھوپ کی شدت تھی ظفرؔ
میں بھی غش کھا کے گرا ان کو بھی چکر آیا