تری تلاش کی میٹھی کسک سے لطف لیا
تری تلاش کی میٹھی کسک سے لطف لیا
یقین توڑنے والے نے شک سے لطف لیا
سو ماند پڑتے ہوئے حسن کو کیا تسلیم
کہ آفتاب کی دھندلی چمک سے لطف لیا
ترے نفس کی حرارت ہوئی نظر انداز
ترے لباس کی بھینی مہک سے لطف لیا
تمام عمر ترے در پہ ہی پڑے رہے ہیں
تمام عمر ترے ہی نمک سے لطف لیا
وہ انتظار تھا اس کا کہ دیکھتے ہی اسے
ذرا قریب کیا پورے حق سے لطف لیا