تری راہ دیکھتا میں بت بے وفا کہاں تک

تری راہ دیکھتا میں بت بے وفا کہاں تک
ترا انتظار میں نے کیا صبح کی اذاں تک


وہی راہزن جنہوں نے مرے کارواں کو لوٹا
بخدا انہی میں شامل ہے امیر کارواں تک


نہ اسے اگر بجھایا تو چمن کو پھونک دے گی
یہی آگ جو ابھی ہے مری شاخ آشیاں تک


کسی کوہ پر گزرتی تو وہ ریزہ ریزہ ہوتا
جو مرے چمن پہ گزری ہے بہار سے خزاں تک


ترا دل بھی جانتا ہے کوئی ربط ہے یقیناً
ترے قہقہوں سے لے کر مرے نالہ و فغاں تک


مجھے سانپ بن کے ڈسنے وہاں شاخ شاخ لپکی
میں گیا جو فصل گل میں کبھی صحن گلستاں تک


مرے عشق کا فسانہ مرے پیار کی کہانی
وہ ہے اب زباں زباں پر جو کبھی تھی رازداں تک


یہ مرا وجود سلماںؔ ہے نشاں کسی کے غم کا
میں کسی کا ہو گیا جب نہ رہا مرا نشاں تک