تری چشم طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پر نم بھی

تری چشم طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پر نم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریۂ غم بھی


تھکن تیرے بدن کی عذر کوئی ڈھونڈھ ہی لیتی
حدیث محفل شب کہہ رہی ہے زلف برہم بھی


بقدر دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدھم بھی


مری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے
میری تنہائیوں سے پیار کرتا ہے ترا غم بھی


بہاروں کے غزل خواں آج یہ محسوس کرتے ہیں
پس دیوار گل روتی رہی ہے چشم شبنم بھی


قریب آتے مگر کچھ فاصلہ بھی درمیاں رہتا
کمی یہ رہ گئی ہے باوجود ربط باہم بھی


ظہیرؔ ان کو ہمارے دل کی ہر شوخی گوارا تھی
انہیں کرنا پڑے گا اب ہمارے دل کا ماتم بھی