تری آنکھوں کا منظر سامنے ہے
تری آنکھوں کا منظر سامنے ہے
میں پیاسا ہوں سمندر سامنے ہے
انا بڑھنے نہیں دیتی ہے آگے
مرے رستے کا پتھر سامنے ہے
خیالوں سے ہے کوسوں دور لیکن
نگاہوں میں وہ اکثر سامنے ہے
میں خود سے روز ہوتا ہوں بغل گیر
مرا اپنا ہی پیکر سامنے ہے
نہ جلوہ ہے نہ آئینہ ہے کوئی
یہ حیرت ہے وہ کیونکر سامنے ہے
مسافت ہے اک آئینہ نظر کا
کہیں جاؤں مرا گھر سامنے ہے
کھلا ہے اے ضیاؔ نظروں میں اک پھول
کوئی صورت بدل کر سامنے ہے