ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں


بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں


یہاں تک بڑھ گئے آلام ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں


کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں


نگاہ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں


انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں


جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں