ترا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خوشبو

ترا خیال کہ خوابوں میں جن سے ہے خوشبو
وہ خواب جن میں مرا پیکر خیال ہے تو


ستا رہی ہیں مجھے بچپنے کی کچھ یادیں
وہ گرمیوں کے شب و روز دوپہر کی وہ لو


پچاس سال کی یادوں کے نقش اور نقشے
وہ کوئی نصف صدی قبل کا زمانہ ہو


وہ گرم و خشک مہینے وہ جیٹھ وہ بیساکھ
کہ حافظے میں کبھی آہ ہیں کبھی آنسو


وہ زائیں زائیں کے کتنے مہیب زناٹے؟
فضا کا ہول ہوا کی وہ وحشتیں ہر سو


وہ سائیں سائیں کے کتنے عجیب سناٹے؟
وہ سنسنی وہ پراسرار ایک عالم ہو


وہ دوپہر وہ ہبوڑے وہ سینگی بائی کوٹ
فضائے شعلہ بجان و ہوائے آتش خو


وہ کھڑکیوں میں ہواؤں کی سرکشی تندی
وہ بام و در پہ مسلط جہنمی جادو


وہ پیچ و تاب بگولوں کا میرے آنگن میں
چڑیلیں گھر میں گھس آئی ہیں کھول کر گیسو


وہ لو کا زور کہ سارے کواڑ بجتے ہیں
کہ جیسے لشکر جنات کا عمل ہر سو


وہ شور جیسے بگولوں میں بھوت ہوں رقصاں
وہ قاہ قاہ وہ ہا ہا وہ ہونک وہ ہو ہو


گزر رہا ہے تصور سے جیٹھ کا موسم
اور اس سمے میں مجھے یاد آ رہا ہے تو