طلسم ہے کہ تماشا ہے کائنات اس کی

طلسم ہے کہ تماشا ہے کائنات اس کی
چراغ ہجر سے روشن رہے گی رات اس کی


زمین ہو کہ زماں سب اسی کے مہرے ہیں
بچھی ہوئی ہے بہت دور تک بساط اس کی


ہمارے ساتھ بھی ہوتے ہیں تجربے اس کے
ہمارے حال میں شامل ہے واردات اس کی


شکست و فتح میں کیا فرق ہے نہیں معلوم
یہ کیا کہ جیت ہماری ہے اور مات اس کی


اسے خموش بھی رہنا تھا ایک پل کے لیے
سمجھ سکا نہ کوئی انجمن میں بات اس کی


ادھر یہ نیند ادھر جاگتے ہوئے سائے
عجیب سلسلۂ خواب ہے حیات اس کی