روزانہ تلاوت کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟
ہر شخص کے احوال مختلف ہوتے ہیں اس لیے تلاوت کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی جا سکتی۔ اس کا تعلق ہر شخص کے ذاتی حالات اور استطاعت سے ہے۔ البتہ اس بات کو ضرور اہمیت دی جائے کہ کوئی دن بھی تلاوت قرآنِ حکیم کے بغیر نہ گزرنے پائے۔ برسبیل تذکرہ ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ تلاوت قرآنِ حکیم کے سلسلے میں ہمارے اسلاف کا کیا طرز عمل تھا:
۱- تلاوت قرآنِ حکیم کی کم سے کم مدت تین روز ہے۔ سلف صالح اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ تین روز سے کم مدت میں یا ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں قرآنِ کریم ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین روز سے کم مدت قرآنِ حکیم کے اندر غوروفکر اور تدبر کے لیے ہرگز کافی نہیں اور ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی تلاوت سے اسے کوئی ذوق نہیں اور درمیان میں کبھی کبھی وہ تلاوت کو ترک بھی کرتا رہا ہے اس لیے اس کو وقت کا اسراف کہا جا سکتا ہے۔
جناب عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس شخص نے ہرگز قرآن کو نہیں سمجھا جس نے اس کو تین روز سے کم عرصے میں ختم کیا۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ)
۲- اس میں میانہ روی یہ ہے کہ ہفتے میں ایک مرتبہ قرآنِ حکیم ختم کیا جائے۔ رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کو ہفتے میں ایک قرآنِ حکیم ختم کرنے کا حکم دیا تھا … صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کا، جس میں حضرت عثمانؓ، جناب زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور جناب ابی بن کعبؓ جیسے حضرات شامل ہیں، یہی طرز عمل تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت یہ تھی کہ جمعہ کی شب کو قرآنِ حکیم کی تلاوت کا آغاز کرتے اور پھر ہر شب میں ایک منزل تلاوت کرتے (پہلی شب بقرہ سے مائدہ، ہفتہ کو سورہ انعام سے ہود، اتوار کو سورہ یوسف سے مریم، پیر کو سورہ طٰہٰ سے قصص، منگل کو سورہ عنکبوت سے ص، بدھ کو سورہ تنزیل سے رحمن اور پھر آخری قرآن تک) اور اس طرح جمعرات کی شب میں قرآنِ کریم کی تلاوت پوری کر لیا کرتے تھے۔
جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلاوت کرنے میں جس طرح سورتیں متعین کر رکھی تھیں ان کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ بہرحال تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآنِ مجید ختم کر لیا کرتے تھے۔