تیر پہ تیر نشانوں پہ نشانے بدلے

تیر پہ تیر نشانوں پہ نشانے بدلے
شکر ہے حسن کے انداز پرانے بدلے


پیار رسوا نہ ہوا آج تلک دونوں کا
ہم نے ملنے کے نئے روز ٹھکانے بدلے


دور آزادیٔ گلشن کا بہت یاد آیا
میرے حصے کے جو صیاد نے دانے بدلے


اک ملاقات نے دل پر کیا ایسا جادو
پھر نہ اترا وہ نشہ لاکھ سیانے بدلے


در بدر ٹھوکریں کھا کر نہ مقدر بدلا
میرے حالات بھی بدلے تو خدا نے بدلے


پہلے جیسا نہیں ماحول رہا گلشن کا
رخ بدل اب تو ہواؤں کے زمانے بدلے


پیش کیا کرتے انہیں جام محبت عارفؔ
عمر کے ساتھ یہ موسم بھی سہانے بدلے