ٹیپو کی آواز
گو رات کی جبیں سے سیاہی نہ دھل سکی
لیکن مرا چراغ برابر جلا کیا
جس سے دلوں میں اب بھی حرارت کی ہے نمود
برسوں مری لحد سے وہ شعلہ اٹھا کیا
پھیکا ہے جس کے سامنے عکس جمال یار
عزم جواں کو میں نے وہ غازہ عطا کیا
میرے لہو کی بوند میں غلطاں تھیں بجلیاں
خاک دکن کو میں نے شرر آشنا کیا
ساحل کی آنکھ میں مگر آئی نہ کچھ کمی
دریا میں لاکھ لاکھ تلاطم ہوا کیا
خواب گراں سے غنچوں کی آنکھیں نہ کھل سکیں
گو شاخ گل سے نغمہ برابر اٹھا کیا
یہ بزم ایسی سوئی کہ جاگی نہ آج تک
فطرت کا کارواں ہے کہ آگے بڑھا کیا
مارا ہوا ہوں گو خلش انتظار کا
مشتاق آج بھی ہوں پیام بہار کا