تین شاموں کی ایک شام

یہ سرمئی سی شام
رگوں میں جس کی دوڑتا ہے خوں شفق کے لالہ زار کا
کسی حسینہ کی اتاری اوڑھنی کی طرح
ملگجی سی شام
جو لمحہ لمحہ خامشی کے بند کی اسیر ہے


یہ آسماں کی سمت منہ اٹھا کے کس کو یاد کرتی ہے
یہ مثل داغ لالۂ چمن
سیاہ آنکھوں میں جو آنسوؤں کا نور بھرتی ہے


تو کیا اسے بھی ہے خبر کہ آنسوؤں کی روشنی
چراغ روز و شب سے شوخ تر
ہے رنگ و نور میں


یہ دھیرے دھیرے اٹھ کے آسماں
پہ نشہ کی طرح سے چھائی جاتی ہے
اشارہ کرتی ہے تو
تارے روشنی کی سمت کھنچ کے آئے جاتے ہیں


سیاہیوں میں سرخیوں
سیاہیوں میں روشنی
کا یہ ہجوم دیکھنا


تو انگلیوں سے پانو کی کمر تلک
کمر سے تا بہ روئے عنبریں
نہ جانے سرد کیوں ہے شام


یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ دامن چمن
میں آفتاب کو
زمیں نے دفن کر دیا