تھی یاد کس دیار کی جو آ کے یوں رلا گئی

تھی یاد کس دیار کی جو آ کے یوں رلا گئی
بس ایک پل میں جیسے زندگی بھی ڈگمگا گئی


گماں تھا یہ کہ دب گئیں وہ حسرتوں کی بجلیاں
یہ کون سی نئی چمک بجھے دیے جلا گئی


گرائیں شاخ شاخ سے خزاں نے پھول پتیاں
اڑے جو بیج ہر طرف تو پھر بہار آ گئی


کھلا نگاہ یار کا جو مے کدہ تو یوں لگا
کہ پیاس ایک عمر کی بس اک نظر بجھا گئی


خدا قسم میں بچ گیا خطا کی تیز دھار سے
جنوں کی اک ادا تھی جو مجھے یوں آزما گئی


یہ کیا ہوا کہ اب تجھی سے بد گماں میں ہو گیا
میں سوچتا تھا زندگی تو مجھ کو راس آ گئی


ملی ہے عازمؔ سخن یہ کیسی تیرگی تجھے
ترے خیال میں جو اتنی روشنی بڑھا گئی