تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا

تھی نیند میری مگر اس میں خواب اس کا تھا
بدن مرا تھا بدن میں عذاب اس کا تھا


سفینے چند خوشی کے ضرور اپنے تھے
مگر وہ سیل غم بے حساب اس کا تھا


دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بد نام
قصور ہم نے کیا احتساب اس کا تھا


یہ کس حساب سے کی تو نے روشنی تقسیم
ستارے مجھ کو ملے ماہتاب اس کا تھا


فلک پہ کرچیاں آنکھوں میں موتیا آنسو
جو ریزہ ریزہ ہوا آفتاب اس کا تھا


مری ذرا سی چمک کو کڑک نے ٹوک دیا
سوال تجھ سے کیا تھا جواب اس کا تھا


کھلی کتاب تھی پھولوں بھری زمیں میری
کتاب میری تھی رنگ کتاب اس کا تھا