تھی محبت کی کار فرمائی

تھی محبت کی کار فرمائی
ورنہ میں اور ناصیہ سائی


چشم و ابرو کے حادثات وہی
اور وہی عذر نا شکیبائی


وہ تمنا کا خوں سہی لیکن
دل میں اک بوند تو نظر آئی


میرے ہم راز یہ نشیب و فراز
اللہ اللہ غم کی گہرائی


زندگی ہے کہ ایک موج سراب
دور تر خوب تر نظر آئی


اب گریباں پہ دیکھیں کیا بیتے
چاند کی رات پھر پلٹ آئی


بڑھتی جاتی ہیں دھڑکنیں دل کی
کس نے تکلیف ناز فرمائی


جیت لی جس نے دل کی ارض پاک
ایک ایسی شکست بھی کھائی


عشق کی آگ بے پناہ سہی
حسن پر آنچ بھی کبھی آئی


بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیوں اپنی
آنکھ بے اختیار بھر آئی


دم نہ احساس کا الٹ جائے
رین اندھیری ہے اور تنہائی