تھم گئی تال انفاس کی

وہ ایک فن کار تھا
جس کی آواز برسوں تلک
محبت کے نغمے سناتی رہی
امن کے گیت گاتی رہی
جس کی آواز سے سر مکمل ہوئے
جس کی آواز نے لے کو بخشی جلا
اس کی آواز پیغام صبح مسرت بھی تھی
اس کی آواز اک درد شام غریباں بھی تھی
وہ ایک فن کار تھا
وقت کے ساز پر گا رہا تھا غزل
مسکرانے لگی جس کو سن کے اجل
تھم گئی تال انفاس کی
دم بخود سارے سر رہ گئے
جھلملانے لگی شمع لطف و سرور
اہل محفل سبھی نوحہ خواں ہو گئے
اور وہ مطرب دلبراں
سب کو محو الم چھوڑ کر
سو گیا دائمی نیند کی نرم آغوش میں