تھکن

گھٹنوں پہ رکھ کر ہاتھ اٹھی
تھکی آواز میں بولی
بہت لمبا سفر ہے
عمر کے منہ زور دریا کا
اکھڑتے پتھروں
چکنی پھسلتی ساعتوں کا
یہ سفر
مشکل بہت ہے


تھکن
بوجھل منوں بوجھل بدن اپنا
اٹھا کر چل پڑی
چلتی رہی
پھر ایک دن
بھاری پپوٹوں کو اٹھا کر
اس نے دیکھا
راستے کے بیچ
ایک برگد پرانا
سمادھی اوڑھ کر بیٹھا ہوا تھا
تھکن
کبڑے عصا کو ٹیکتی
برگد کے سائے میں چلی آئی
معاً ٹھٹکی ٹھٹھک کر رک گئی
بولی
چلو ہم بھی یہاں رک کر
سمادھی اوڑھ لیتے ہیں
چلو ہم بھی اترتے ہیں
خود اپنی تہہ کے اندر
اور خود کو ڈھونڈتے ہیں
ابد تک
نیند کے دریا میں ہم بھی اونگھتے ہیں


تھکن
گھٹنوں پہ رکھ کر ہاتھ
اٹھی
تھکی آواز میں بولی
بہت لمبا سفر ہے