ٹھہرا وہی نایاب کہ دامن میں نہیں تھا
ٹھہرا وہی نایاب کہ دامن میں نہیں تھا
جو پھول چنا میں نے وہ گلشن میں نہیں تھا
تھی موج لپکتی ہوئی میرے ہی لہو کی
چہرہ کوئی دیوار کے روزن میں نہیں تھا
خاکستر جاں کو مری مہکائے تھا لیکن
جوہی کا وہ پودا مرے آنگن میں نہیں تھا
آخر میں ہدف اپنا بناتا بھی تو کس کو
میرا کوئی دشمن صف دشمن میں نہیں تھا
چھیڑا تو بہت سبز ہواؤں نے مگر زیبؔ
شعلہ ہی کوئی خاک کے خرمن میں نہیں تھا