ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں
ٹھہر جاوید کے ارماں دل مضطر نکلتے ہیں
کھڑے ہیں منتظر ہم گھر سے وہ باہر نکلتے ہیں
اسیران کہن معتوب ہو ہو کر نکلتے ہیں
کہ زنداں سے جنازے اٹھتے ہیں بستر نکلتے ہیں
نہیں معلوم منہ سے دل جگر کیوں کر نکلتے ہیں
ہم ان سے پوچھ لیں گے چھوڑ کے جو گھر نکلتے ہیں
خبر لیتا نہیں غربت میں کوئی پا شکستہ کی
جہاں ہم ہیں ادھر سے قافلے اکثر نکلتے ہیں
کبھی مدفوں ہوئے تھے جس جگہ پر کشتۂ ابرو
ابھی تک اس زمیں سے سیکڑوں خنجر نکلتے ہیں
ہر اک معشوق کے دفتر میں ہم مقتول لکھے ہیں
جہاں دیکھو ہمارے نام کے دفتر نکلتے ہیں
نہیں ہے ایک حرف تلخ کی جاگو مرے دل میں
مگر پوچھو تو شکوؤں کے ابھی دفتر نکلتے ہیں
جوانی سے تکلف بڑھ گیا ہے میرے ساقی کا
شراب کہنہ آئی ہے نئے ساغر نکلتے ہیں
ہزاروں مفسدے در پر بپا رہتے ہیں اے قاتل
ترے کوچے سے لاکھوں فتنۂ محشر نکلتے ہیں
ابھی فرصت نہیں اے اہل محشر سب فرشتوں کو
ٹھہر جاؤ مرے اعمال کے دفتر نکلتے ہیں
جو کر کے ضبط ساتھ اشکوں کے ہیں آنے نہیں دیتا
صدا دیتا ہے دل پہلو سے ہم باہر نکلتے ہیں
ہوا ہے سخت مشکل دفن ہونا تیرے وحشی کا
جہاں پر قبر کھودی جاتی ہے پتھر نکلتے ہیں
بہار آئی مبارک عاشق و معشوق کو ملنا
کہ کلیاں پھوٹتی ہیں بلبلوں کے پر نکلتے ہیں
سوا قلب و جگر کے مملکت میں عشق کی کیا ہے
اگر ڈھونڈھو تو یہ اجڑے ہوئے دو گھر نکلتے ہیں
نظر کے خوف سے کتری گئیں ہیں ان کی واں پلکیں
مری رگ رگ سے یاں ٹوٹے ہوئے نشتر نکلتے ہیں
سمجھ کے جن کو جگنو باندھتے ہو اپنے دامن میں
شرر یہ شب کو میرے دل سے اے دلبر نکلتے ہیں
نشاں قلب و جگر کا آنسوؤں سے صاف کیا پاؤں
کہ وہ تو کشتیاں ڈوبی ہیں سو لنگر نکلتے ہیں
کشیدہ ان کے ابرو ہیں نگاہیں تیز ہوتی ہیں
کمانیں کھنچ رہی ہیں میان سے خنجر نکلتے ہیں
جگر دل آتے ہیں آنکھوں سے باہر جمع ہیں آنسو
کہ اپنے ملک سے سلطاں مع لشکر نکلتے ہیں
خیال اتنا تو ہے تیرے گلے کا ہار ہوں شاید
گل تر باغ سے ہنستے ہوئے باہر نکلتے ہیں
جہنم سے کوئی کہہ دے ذرا ہشیار ہو جائے
غضب کا وقت ہے قبروں سے دامن تر نکلتے ہیں
توقع اٹھ گئی آنے کی بالکل یوں اٹھایا ہے
کہ آج ان کی گلی سے ہم مع بستر نکلتے ہیں
کروں کیوں کر نہ تعظیم اس کی میں لائے جو خط اس کا
کہ اکثر اس طرح کے لوگ پیغمبر نکلتے ہیں
قفس میں ہم صفیران چمن کیوں چھوڑے جاتے ہو
ذرا دو دن ٹھہر جاؤ ہمارے پر نکلتے ہیں
جگر داری کا دعویٰ مٹ گیا ہر شخص کہتا ہے
جو دونوں ہاتھ ہم رکھے ہوئے دل پر نکلتے ہیں
رشیدؔ آغاز الفت سے کہیں انجام بہتر ہے
کہ بحر عشق کے ڈوبے لب کوثر نکلتے ہیں